Pages

Sunday 14 September 2014

سینٹ پال سے عبداللہ بن سبا تک

اللہ کی مبغوض قوم سے اور آپ توقع بھی کیا کرسکتے ہیں،  عیسی علیہ السلام کو اپنے تئیں یہودیوں نے صلیب پر چڑھا دیا اور یہ گمان کر بیٹھے کہ انھوں نے دین عیسوی کا گلا گھونٹ دیا ہے، عیسی علیہ السلام کے بعد انکے بارہ حواریوں نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کی تعلیمات کو بڑی جانفشانی کے ساتھ  کرہ ارض پر پھیلانا شروع کیا اور بڑی تیزی کیساتھ لوگ یہودیت کی فرسودہ روایات کو چھوڑ کر دین عیسوی کے حلقہ بگوش ہونے لگے،  اس زمانے کے کاہن (یہودی علماء)  یہ دیکھ کر پریشان ہوگئے کہ ہماری جاہ وجلال دین عیسوی کی وجہ سے خطرے میں پڑ گئی ہے،  اس کے سدباب کے لئے یہودیت سے ایک چوٹی کا زہین شخص "پولس"   ( سینٹ پال ) یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ یہودیت سے تائب ہوکر عیسائی بن رہا ہے اور اپنے اوپر عیسی علیہ السلام کے نزول کا قصہ سنا کر دوسرے حواریوں کی ہمدردیاں حاصل کرتا ہے اور ہمہ تن وہ عیسائیت کی تبلیغ میں مصروف ہوجاتا ہے اور اتنی جانفشانی دکھاتا ہے کہ باقی حواریوں کو پس منظر میں دھکیل دیتا ہے.
یہاں تک تو قصہ ٹھیک تھا لیکن اس نے دین عیسوی کے ساتھ وہ واردات کی کہ جس کی قیمت قیامت تک عیسائی چکا رہے ہیں، اس نے عیسی علیہ السلام کی الوہیت اور خدا کے بیٹا ہونے کے عقیدے کو رواج دیا کہ آج تک عیسائی یہ سمجھ نہیں پارہے کہ خدا تو تین ہیں لیکن تین ایک ہے.  پولس نے یونانی مشرکوں کو خوش کرنے کے لیے لاتعداد ایسے عقائد عیسائیت میں شامل کردیے کہ جسکا عیسائیت جیسے توحید کے مذہب سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا.

تاریخ کا ایک صفحہ الٹیے،  یہود مدینے میں کئی صدیوں سے اپنے نجات دہندہ نبی کی آمد کے منتظر تھے، لیکن جب وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائے تو بجائے اس نبی کی پیروی کرنے کے الٹا یہود نے عصبیت کی بناء پر اس نبی کی مخالفت کرنی شروع کردی،  بہت ساری جنگیں قریش نے یہودیوں کی تحریک پر شروع کیں. جب اللہ نے اسلام کو قوت دی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو انکے اعمال کی سزا دی تو وہ انکے سینے میں چبھ کر رہ گئی،
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دور تک کسی فتنہ کو سر اٹھانے کی جراءت نہ ہوئی ،  حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کا دور انکے حلم اور بردباری کی مثال آپ تھا،  اس موقعہ کو آئیڈیل جان کر یہود نے دین اسلام سے بدلہ لینے کا فیصلہ کیا،  عبداللہ بن سبا یہودی اسلام کا اعلان کرتا ہے لیکن درحقیقت وہ یہودی ہی رہتا ہے،  اس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف سازشیں اس طرح بنی کہ جو بالآخر آپ رضی اللہ عنہ کی شہادت پر منتہج ہوئیں.  عبداللہ بن سبا نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی الوہیت کا نعرہ بلند کیا اور بہت ساری خدائی صفات کا مظہر حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو قرار دیا.....

  گو کہ یہ فتنہ اللہ کے اس وعدے کی وجہ سے امت میں پھیل نہیں سکا کہ جس میں اللہ تعالٰی نے قرآن کریم کی حفاظت کی ذمہ داری اٹھائی تھی. وگرنہ یہودیوں نے کوشش ضرور کی تھی....

Sunday 2 March 2014

آزمائش اور استقامت

الله تعالیٰ نے بنی نوح انسان کے لیے جو انبیائے کرام مبعوث فرمائے ہیں انکا کام لوگوں کی حق کی طرف رہنمائی تھا ـ ظاهر ہے اتنا کھٹن کام بغیر تکلیف اور مشقت کے کیسے پایہ تکمیل کو پہنچ سکتا ہے ـ کم وبیش ہر نبی کو اس کی امت کی طرف سے مصائب اور پریشانیوں کا کوہ گراں عبور کرنا پڑتا تھا تب جاکر کہیں کچھ لوگ انکی دعوت پر لبیک کہتے تھے ـ الله تعالی نے ان میں سے پانچ اولوالعزم پیغمبروں کا تذکرہ بطور خاص کیا ہے ـ جن میں حضرت نوح علیہ السلام حضرت ابراهیم علیہ السلام حضرت موسی علیہ السلام حضرت عیسی علیہ سلام اور جناب محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے اسماء گرامی ہیں ـــ ان انبیاء کرام کے حالات کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ انکی آزمائشیں بہت ہی سخت تھیں ـ حضرت ابراهیم علیہ السلام کی آزمائشیں تو بہت زیادہ ہیں لیکن جس آزمائش پر آسمان کے فرشتے بھی رو پڑے تھے وہ آزمائش تھی اپنے محبوب لخت جگر سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو اپنے ہاتھوں سے ذبح کرنا کہ جس کو رب سے رو رو کر مانگا گیا تھا ـ لیکن قربان جاؤں خلیل الله کی وفا پر کہ اپنے رب کے حکم پر بیٹے کی گردن پر چھری چلا دی ــ پھر رب نے صلہ بھی کیا خوب دیا فرمایا " انی جاعلک للناس اماما" آج یہودی بھی یہ دعوی کرتے ہیں کہ ابراهیم ہمارا ہے عیسائی بھی ابراهیم علیہ السلام کواپنا پیشوا تسلیم کرتے ہیں وہ الگ بات ہے کہ قرآن ان کے اس دعوے کی واشگاف الفاظ میں تردید کرتا ہے ـ" ما کان ابراهیم یہودیا ولا نصرانیا ولکن کان حنیفا مسلما " اگر اپنے اسلاف کی بات کی جائے تو ان میں امام احمد بن حنبل رح کی آزمائش اور استقامت خلق قرآن کے مسئلے پر ہے شاید ہی اسکی نظیر مل سکے ـ سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ امام صاحب کو قریبا اٹھائیس مہنیے تک قید میں رکھا گیا اور ایسی شدت کے کوڑے لگائے جاتے کہ اگر ویسا ایک کوڑا ہاتھی پر پڑتا تو چیخ مار کر بھاگتا مگر امام صاحب کی استقامت کو سلام ہےکہ جو کوڑے کھا کھا کر بے ہوش تو ہوجاتے مگر خلق قرآن کے عقیدے کا اقرار کرنا گوارا نہ کیا ـ حتی کہ امام بخاری رح کے استاد بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ " الله تعالی نے اس دین کے غلبہ اور حفاظت کا کام دو شخصوں سے لیا ہے کہ جن کا تیسرا ہمسر نظر نہیں آتا ـ ارتداد کے موقع پر صدیق اکبر رضی الله عنہ اور فتنہ خلق قرآن کے موقع پر احمد بن حنبل ــ امام صاحب کی حق گوئی اور استقامت کا ایک نتیجہ تو یہ نکلا کہ خلق قرآن کا فتنہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا دوسرا انکے جنازے کو دیکھ کر بیس ہزار غیر مسلم اسلام لے آئے تھے ـ روایات میں آتا ہے کہ قریبا آٹھ لاکھ لوگوں نے امام صاحب کی نماز جنازہ ادا کی ـ امام شافعی رح جیسے فقیہ نےانکی اس قمیص کو دھوکر پیا کہ جو کوڑے لگتے وقت امام صاحب کے جسم پر تھی ـ یہ ایک دو واقعات نمونے کے طور پر تھے ـ حق پر استقامت کا صلہ الله کی طرف سے ضرور داعیوں کو ملتا ہے ـ اور وہ لوگوں کی ھدایت کا زریعہ بنتے ہیں ـ ایک الله والے کا قول ہے کہ استقامت ہزار کرامتوں سے افضل ہے ـ ایک موقع پر الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے بھی اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ ان پر وہ آیت بھاری ہے کہ جس پر استقامت کا حکم دیا گیا ہے ـ الله تعالی ہم کو بھی حق پر استقامت نصیب فرمائے ـ آمین